Dear Father _ Story in Urdu

 ابا جان 


میرے اور میرے والد کے درمیان صرف ڈر کا رشتہ تھا ۔ ہمارے ہاں صرف اور صرف ماں کے ساتھ عزت اور باپ کے ڈر کا رشتہ ہوتا ہے ۔

شائد ہی ابا سے کوئی لمبی بات کی ہو میں نے ۔ ڈر ہی بڑا لگتا تھا ۔

میں گھر میں سب سے چھوٹی تھی ۔ ابا صبح نکلتے شام کو واپس آتے ۔ اور سو جاتے ۔ مجھے یاد ہے میں پانچویں میں تھی جب جماعت میں پہلی پوزیشن پر آئی تھی ۔ ابو نے ایک لفظ نا اچھا کہا اور نا برا ۔ ہاں اگلی صبح اماں نے بتایا کہ ابا بڑے خوش ہیں ۔ اور یہ پچاس روپے دیے ہیں انعام میں ۔ 

میں بڑی خوش تھی ۔۔ پھر میں میٹرک میں آگئی ۔ بڑی محنت کی اور کلاس کی پہلی دس لڑکیوں میں آگئی ۔ اب بھی ابا کچھ نہیں بولے ۔ ہاں صبح پھر ماں نے کہا ابو بہت خوش ہیں سو روپے دیے ہیں ۔

مجھے یاد ہے کہ میں دس گیارہ کی تھی جب میں نے دوپٹہ لینا شروع کردیا تھا اور چودہ یا پندرہ کی تھی جب مکمل پردہ شروع کردیا تھا ۔ اماں ہر وقت کہتی تھیں کہ ابا کو اپنی بیٹی پر ناز ہے کہ وہ اتنا پردہ کرتی ۔ مجھے یقین نہیں آتا تھا کہ ابا اتنی باتیں کرتے ۔ 

میرے ابا کو میٹھا کھانا بہت پسند تھا ۔ بچپن سے ہی میں نے ابو کے کام اپنے ہاتھوں لے لیے ۔ ان کے لئے کھانا پکاتی ۔ حلوے بناتی ۔ لیکن کبھی انہوں نے کچھ نہیں کہا ۔ 

مگر پھر سے اماں صبح کہتی رات کو تیرے ابا کو بریانی بڑی پسند آئی تھی ۔ واہ واہ کررہے تھے۔  انہیں گجریلا بڑا پسند آیا ۔ بڑی تعریف کررہے تھے ۔ 

آہستہ آہستہ مجھے یہ تعریفیں جھوٹی لگنے لگیں ۔ مجھے لگا کہ اماں خوش کرنے کے لیے مجھے یہ سب باتیں کرتی ہیں ۔ 

میں نے ایف ایس سی کر لی ۔ ابا نے رزلٹ آنے سے ہی شادی کردی ۔ اماں نے پوچھا کہ ابا پوچھ رہے ہیں کہ لڑکا پسند ہے کہ نہیں ۔ میں نے کہا کرنی تو انہوں نے مرضی ہے ۔ بات ختم ۔

مجھے پتھر دل انسان لگنے لگے ۔ مجھے لگا کہ شاید انہیں پتا ہی نہیں چلتا تھا کہ کھانا اماں بناتی ہیں یا میں ۔ ان کے سارے کام کون کرتا وغیرہ ۔

جب میں رخصت ہونے لگی تو شائد زندگی میں میں نے پہلی بار ان کی آنکھیں نم دیکھیں۔  وہ شخص جو اپنی ماں کی وفات پر نہیں رویا وہ اج ایک کمزور شخص دیکھائی دیا ۔ میں تو بس اپنے سر پر ہاتھ رکھوانے گئی تھی مگر انہوں نے گلے لگا لیا ۔ زندگی میں شاید پہلی بار ۔۔

وقت گزرتا گیا ۔  میرے ہر بچے پر وہ آئے ۔ اور مجھے یہی لگتا تھا کہ وہ صرف رسم پوری کرنے آتے ہیں ۔ انہیں میرے بچے کہاں پیارے لگتے ۔ 

میرے بچے بڑے ہوگئے ۔ ایک دن میں نے پوچھا ہم نانی گھر جارہے ۔ وہاں کس سے ملنا تو میری چار سال کی بیٹی نے کہا نانا سے ۔ یہ ایک دھچکا تھا جو مجھے لگا ۔ 

ایک دن میں ویڈیو کال پر اماں سے بات کررہی تھی کہ بچے کہتے ہمیں بھی نانی سے بات کرنی ہے ۔ میں نے انہیں فون دیا اور کچن میں چلی گئی ۔ واپس آئی تو دیکھا سارے نانا سے بات کررہے ۔ وہ بھی بچوں کے ساتھ مل کر بچے بنے ہوئے ۔ یہ ان کا الگ روپ تھا ۔۔

۔

ایک دفعہ میں میکے گئی تو بھرجائی سے کہا کہ کھانا میں بناؤں گی تو کھانے کے درمیان ابا جی بول پڑے ۔ فاطمہ مہمان ہے ۔ اس سے کھانا کیوں بنوایا ۔ مجھ سے رہا نہیں گیا اور پوچھا کہ آپ کو کیسے پتا چلا ۔ 

کہتے " یہ تیز مرچیں اور نمک میں زیادتی کا پہلے دن سے پتا۔  میری بیٹی ہر جگہ ہی اول رہی ہے مگر آج تک نمک ڈالنا نہیں آیا ۔۔ مگر میٹھے میں تو کمال کردیتی ہے ۔ واہ مزا اجاتا " ۔

اس دن مجھے معلوم ہوا میری اماں کبھی جھوٹی نہیں تھیں ۔ بس میں ہی ابا کو ناسمجھ پائی ۔

تب سے نمک سوچ کر ڈالتی ہوں ۔۔۔

.

منقول

My Dear Father _Short Story Urdu


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے